Home

About Us

Contact us

privacy policy

  • X
  • WhatsApp
  • Facebook
  • YouTube
newswithsk.com

newswithsk.com

  • کروبار
  • کھیل
  • سکولرشپز
  • نوکریاں
  • ولاگوز
  • انٹرویو
  • کا لمز
  • خبریں
Search

اضطراب کا نشہ تحریر: نواز بگٹی

shoukatalibugti010@gmail.com Avatar
July 27, 2025
اضطراب کا نشہ تحریر: نواز بگٹی

ہم نے کبھی اس بے چینی کو گہرائی سے محسوس کیا جو رات کے سناٹے میں ہمارے دل پر دستک دیتی ہے؟ وہ اضطراب جو ایک نامعلوم خوف کی مانند ہمارے دماغ میں سرایت کر جاتا ہے، جیسے کوئی سایہ جو ہر سانس کے ساتھ ہمارے وجود کو چھوتا ہے؟ یہ اضطراب محض ایک لفظ نہیں؛ یہ وہ نفسیاتی و جذباتی کیفیت ہے جو ہمارے دل و دماغ کو ایک ایسی بے سکونی میں جکڑتی ہے جہاں ہر لمحہ ایک امتحان بن جاتا ہے۔ یہ وہ باطنی آگ ہے جو ہمارے خیالات کو منتشر کرتی ہے، ہماری نیندوں کو چھین لیتی ہے، اور ہمارے دل کو ایک ایسی اذیت میں ڈبوتی ہے جو ہماری روح کو کھرچتی ہے۔ جولائی 2025 میں، ہم پاکستانی قوم اس اضطراب کے نشے میں اس قدر ڈوب چکے ہیں کہ یہ ہماری اجتماعی شناخت کا حصہ بن گیا ہے۔ معاشرتی، معاشی، اور صنفی ناانصافیوں نے اس بے چینی کو ایک ایسی اذیت ناک لذت میں بدل دیا ہے جو ہمارے وجود کو کھوکھلا کر رہی ہے۔ ہماری بے حسی اسے قبول کرنے پر مجبور کرتی ہے، لیکن کیا ہم نے کبھی ٹھہر کر سوچا کہ یہ نشہ ہمارے اندر کیسے گھر کر گیا؟اضطراب کوئی معمولی احساس نہیں۔ یہ ایک ایسی ذہنی و جذباتی کشمکش ہے جو ہمارے وجود کو ایک ایسی بے سکونی میں جکڑتی ہے جہاں ہر صبح ایک نئے خوف کے ساتھ ہمارا استقبال کرتی ہے۔ نفسیاتی طور پر، اضطراب ہمارے دماغ کے تناؤ کے نظام کو مسلسل فعال رکھتا ہے، جہاں کورٹیسول جیسے ہارمونز کی سطح بڑھ جاتی ہے، ہماری نیندیں اڑ جاتی ہیں، اور ہمارے خیالات ایک ایسی دلدل میں پھنس جاتے ہیں جہاں سکون ایک خواب بن جاتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی 2024 کی ایک رپورٹ کے مطابق، دنیا بھر میں تقریباً 30 کروڑ افراد، یعنی عالمی آبادی کا 4 فیصد، اضطراب کی کسی نہ کسی شکل سے متاثر ہیں۔ پاکستان میں ذہنی صحت کے مسائل پر اعداد و شمار محدود ہیں، لیکن فرنٹیئرز ان ہیلتھ سروسز کی 2025 کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان میں تقریباً 2 کروڑ 40 لاکھ افراد کو ذہنی صحت کی خدمات کی ضرورت ہے، مگر صرف 0.19 ماہرین نفسیات فی ایک لاکھ آبادی کے تناسب سے موجود ہیں۔ یہ وبا ہمارے دماغ کو تناؤ کی زنجیروں میں جکڑتی ہے، جہاں ہم ناانصافیوں کو دیکھتے ہیں—گلیوں میں بھوک سے لڑتے بچوں کی شکل میں، اسکول سے محروم لڑکیوں کی آنکھوں میں، یا ان مردوں کے چہروں پر جو سماجی دباؤ کے بوجھ تلے دبے ہیں—لیکن ہماری بے حسی ہمیں اسے ایک ناگزیر حقیقت کے طور پر قبول کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ یہ اضطراب ایک نشے کی مانند ہے، جو ہمیں اس اذیت کے ساتھ جینے کی عادت ڈال دیتا ہے، حالانکہ یہ ہماری ذہنی صحت کو تباہ کر رہا ہوتا ہے۔ کیا ہم نے کبھی اس خاموش وبا کے اثرات کو اپنے معاشرے کی روح پر سمجھنے کی کوشش کی؟معاشی ناانصافی اس اضطراب کی ایک گہری جڑ ہے۔ جولائی 2025 میں، جب ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑاتے ہیں، تو ایک تلخ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے: چند ہاتھوں میں دولت کے انبار ہیں، جبکہ لاکھوں لوگ دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں۔ ورلڈ بینک کی 2024 کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک میں معاشی تفاوت بڑھ رہا ہے، جہاں 60 فیصد سے زائد آبادی روزانہ 3.65 ڈالر سے کم آمدنی پر گزارا کرتی ہے۔ پاکستان اکنامک سروے 2024 کی رپورٹ بتاتی ہے کہ ایک محنت کش اوسطاً مشکل سے 2 ڈالر روزانہ کماتا ہے، جو عالمی غربت کی لکیر سے بھی نیچے ہے۔ بجلی کے بلوں میں بے تحاشا اضافہ، بچوں کی فیسوں کی فکر، یا روزمرہ کی ضروریات کی بڑھتی قیمتیں—یہ سب وہ بوجھ ہیں جو ہمارے کندھوں پر لد جاتے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی اس احساس کو گہرائی سے سمجھا جب ہمارے پاس اپنے بچوں کے لیے ایک جوڑا جوتوں کا خرچہ بھی نہ ہو؟ یہ وہی اضطراب ہے جو ہمارے دل و دماغ کو کھا جاتا ہے، جو ہمیں راتوں کو جگاتا ہے، اور جو ہر صبح ایک نئے خوف کے ساتھ ہمارا استقبال کرتا ہے۔ یہ تناؤ ہمارے وجود کا حصہ بن جاتا ہے، اور ہم اس اذیت کو ایک ناگزیر حقیقت سمجھ کر اس کے ساتھ جینے لگتے ہیں۔ یہ ایک نشہ ہے جو ہمیں اپنی معاشی محرومیوں کے ساتھ جکڑتا ہے، اور ہم اسے اپنی زندگی کا حصہ مان لیتے ہیں۔صنفی ناانصافی ہمارے معاشرے کا ایک گہرا زخم ہے جو اس اضطراب کی شدت کو اور بڑھاتا ہے۔ عالمی اقتصادی فورم کی 2024 کی رپورٹ کے مطابق، 146 ممالک میں پاکستان 142ویں نمبر پر ہے جب بات خواتین کی معاشی شمولیت اور مواقع کی آتی ہے۔ پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کی 2024 کی لیبر فورس سروے رپورٹ کے مطابق، پاکستانی افرادی قوت میں خواتین کی شرکت صرف 23.5 فیصد ہے، حالانکہ آبادی کا 49.4 فیصد خواتین پر مشتمل ہے۔ اس سے بھی زیادہ دلخراش وہ وحشیانہ حقیقت ہے کہ خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے، ایک ایسی سفاکی جو ان کی زندگیوں کو محض سماجی روایات کی بھینٹ چڑھا دیتی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی 2024 کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں ہر سال تقریباً 1,000 سے 1,500 خواتین غیرت کے نام پر قتل کی جاتی ہیں، اور یہ تعداد حقیقت سے کہیں کم ہو سکتی ہے کیونکہ بہت سے واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ کیا ہم نے کبھی اس عورت کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا جو اپنے گھر میں بھی غیر محفوظ ہو، اور پھر بھی اس کی خاموش چیخ غیرت کے نام پر دبا دی جاتی ہے؟ کیا ہم نے اس مرد کے دل کی بے چینی کو سمجھا جو سماجی دباؤ کے تحت ایک غیر حقیقی “مردانگی” کا بوجھ اٹھاتا ہے؟ اقوام متحدہ کی 2024 کی رپورٹ بتاتی ہے کہ دنیا بھر میں صنفی مساوات کا ہدف 2030 تک حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے کیونکہ صحت، تعلیم، اور روزگار کے شعبوں میں خواتین کے ساتھ گہرا امتیازی سلوک جاری ہے۔ یہ ناانصافی ہر ایک کے دل میں ایک اضطراب بھر دیتی ہے، جو ہمارے وجود کو ایک ایسی اذیت ناک لذت میں مبتلا کرتی ہے کہ ہم اسے قبول کر لیتے ہیں۔ یہ ایک نشہ ہے جو ہمیں اپنی کمزوریوں کے ساتھ جینے پر مجبور کرتا ہے، اور ہم اس چکر میں گھومتے رہتے ہیں۔معاشرتی ناانصافی، جیسے کہ طبقاتی تقسیم، امتیازی سلوک، اور بنیادی حقوق سے محرومی، ہمارے اضطراب کی ایک اور جڑ ہے۔ جولائی 2025 میں، جب ہم اپنے معاشرے پر نظر دوڑاتے ہیں، تو ایسی تلخ حقیقتیں نظر آتی ہیں جیسے گلیوں میں بھوک سے لڑتے بچوں کی یا ان خواتین کی خاموش چیخوں کی جو اپنے حقوق سے محروم ہیں۔ اقوام متحدہ کی اقتصادی و سماجی کمیشن برائے مغربی ایشیا کی 2025 کی رپورٹ کے مطابق، عرب ممالک اور پاکستان سمیت خطے میں 18 کروڑ 70 لاکھ افراد صحت، تعلیم، غذائی تحفظ، اور معیشت جیسے اہم شعبوں میں پسماندگی کا شکار ہیں۔ اسی رپورٹ کے مطابق، 7 کروڑ 80 لاکھ بالغ افراد ناخواندہ ہیں، 1 کروڑ 53 لاکھ افراد بے روزگاری کا شکار ہیں، اور 17 کروڑ 40 لاکھ افراد بنیادی صحت کی سہولیات سے محروم ہیں۔ یونیسیف پاکستان کی 2024 کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں 40 فیصد سے زائد بچے اسکول سے باہر ہیں۔ یہ ناانصافی ہمارے اجتماعی شعور پر ایک زخم کی طرح ہے، جو ہمیں ایک ایسی نفسیاتی کیفیت میں مبتلا کرتی ہے جہاں ہم اپنی بے حسی کے ساتھ جینے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ یہ اضطراب ایک نشے کی طرح ہمارے وجود کو جکڑتا ہے، اور ہم اس اذیت کو ایک عجیب سی لذت کے طور پر قبول کر لیتے ہیں۔ہم اس اضطراب کے نشے سے آزاد ہو سکتے ہیں اگر ہم اپنی بے حسی کو توڑیں۔ اور یہ صرف اجتماعی شعور سے ہی ممکن ہے۔ اجتماعی شعور سے مراد وہ بیداری ہے جو ہمیں ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت دیتی ہے، جو ہمیں ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے کی ترغیب دیتی ہے، اور جو ہر فرد کو اپنے حقوق اور فرائض سے آگاہ کرتی ہے۔ اس کے لیے عملی اقدامات ناگزیر ہیں، جیسے کہ تعلیمی نصاب میں صنفی مساوات اور سماجی انصاف کے موضوعات شامل کرنا تاکہ نئی نسل میں شعور پیدا ہو، معاشی تفاوت کم کرنے کے لیے چھوٹے پیمانے پر ترقیاتی پروگرام شروع کرنا جو غریب طبقات کو روزگار اور پیشہ ورانہ تربیت فراہم کریں، اور کمیونٹی کی سطح پر مکالموں کا اہتمام کرنا جو لوگوں کو ناانصافیوں کے خلاف متحد کرے۔ من حیث القوم ہمیں اپنی اجتماعی ذہنی صحت کو ترجیح دینی ہو گی تاکہ ہم ایک منصفانہ معاشرہ تشکیل دے سکیں۔

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

About Us

NEWS WITH SK

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit, sed do eiusmod tempor incididunt ut labore et dolore magna aliqua. Ut enim ad minim veniam, quis nostrud exercitation ullamco laboris nisi ut aliquip ex ea commodo consequat.

Latest Articles

  • اضطراب کا نشہ تحریر: نواز بگٹی

    اضطراب کا نشہ تحریر: نواز بگٹی

    July 27, 2025
  • اسلام آباد سے لاہور جانے والی مسافر بس کو حادثہ ، 8 مسافر جاں بحق اور 18 زخمی ۔

    اسلام آباد سے لاہور جانے والی مسافر بس کو حادثہ ، 8 مسافر جاں بحق اور 18 زخمی ۔

    July 27, 2025
  • گوادر کے قریب ماہی گیروں کی ڈوب گئی 2 جاں بحق، 3 لاپتہ

    گوادر کے قریب ماہی گیروں کی ڈوب گئی 2 جاں بحق، 3 لاپتہ

    July 26, 2025

Categories

  • Uncategorized (77)
  • انٹرویوز (3)
  • خبریں (192)
  • سکولرشپز (1)
  • کا لمز (7)
  • کھیل (2)
  • نوکریاں (22)

Design By Nadeembugti7

Email Nadeembugti190@gmail.com .

Scroll to Top