
سابق نگراں وزیر اعظم انوار الحق کا کڑ نے کہا ہے کہ ٹرین سانحہ کے بعد ڈیڑھ ماہ کے اندر بلوچستان میں آپریشن ہو سکتا ہے، ایسے میں ضروری ہے کہ آپریشن فوکس کلیئر اور ہے کہ اور اسمارٹ ہونا چاہیے، بلوچستان میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی آزادی کے تناظر میں بلوچستان حکومت تبدیل ہونے کے با آثار دور دور تک نظر نہیں آ رہے ، بلوچستان میں نے شدت پسندی پہلے سے جاری ہے ، شدت پسندی میں تیزی سرفراز بگٹی یا ان کی حکومت کی وجہ سے نہیں آئی، سرفراز بگٹی تو ابھی آئے ہیں ان کو ابھی سال بھی نہیں ہوا۔ ماہ رنگ بلوچ کے دوہرے رویہ سے متعلق سوال پر سابق وزیر اعظم انوار الحق کا کڑ نے کہا کہ ایک خاتون جو تر تبت سے اسلام آباد کے لیے نکلی ، میڈیا نے چند ماہ میں اس کو ہیومن رائٹس کا چیمپئین ڈکلیئر کر دیا، مگر میرا اس پر اعتراض یہ ہے کہ وہ نہ ہیومن رائٹس ایکٹیویٹ ہے نہ وہ خواتین کی خود مختاری کی بات کر رہی ہے البتہ جو کچھ شدت پسندوں کے حق میں جاتا ہے اس کے لیے وہ آواز اٹھاتی ہے۔ بلوچستان میں شدت پسندوں کے ہاتھوں مارے جانے والوں کے لیے وہ آواز بلند نہیں کرتی، تب ماہ رنگ پر خاموشی طاری ہو جاتی ہے۔ بلوچستان میں شدت پسندی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ میرے نزدیک سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے یہ ہے کہ تشدد کا جواب ہونا چاہیے یا نہیں؟ جب آپ کسی بھی تشدد کی توجیح دینا شروع بھی کی توجیح دینا شروع کر دیتے ہیں تو اس کی مختلف پہلوؤں کو کھوجنے لگتے ہیں تو آپ لا محالہ ایک مینٹل پروسس میں انگیج ہو جاتے ہیں اور تشدد کی توجیح کرنے لگتے ہیں یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس مسئلے کو حل کیسے کیا جائے؟ ، ایک یہ طریقہ ہے کہ آپ اس کے سامنے دست بستہ کھڑے ہو جائیں، ان سے درخواست کریں کہ ہم عدم تشدد پر یقین رکھتے ہیں ہیں ہم پر رحم کریں، ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ان کو اخلاقیات کا درس دیں۔ ہو سکتا ہے ان کے دل میں رحم آجائے اور ہو سکتا ہے کہ ان کا نقطہ نظر تبدیل ہو جائے ، اس کے کتنے امکانات ہیں اس پر ضرور لوگ سوچیں ۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ تشدد کرنے والے کو فورس کرتے ہیں یہاں تک کہ اس کی تشدد کیصلاحیت کم ہو جائے یا ختم ہو جائے ۔ ایک سوال کے جواب میں انوار الحق کا کڑ نے کہا کہ مجھے اس بات پر سے تکلیف سے زیادہ حیرت ہوتی ہے کہ اس تشدد کو جس کو دنیا نے دہشت کا نام دیا ہے پاکستان میں میڈیا کا یک ایک حصہ اس پورے عمل کو معاشی مسائل کے ساتھ گیا جوڑنا شروع کر دیتا ہے۔ کوئی اس تشدد کی توجیح کی طرف چل پڑتا ہے، کوئی آپ کو 70 سال کی تاریخ یاد دلانا شروع کر دیتا ہے۔ کوئی آپ کو مبہم اور مسخ تاریخ بتانا شروع کرتا ہے کہ ریاست قلات کو زبردستی شامل کر لیا گیا، پہلے دن سے یہ لوگ آپ کے ساتھ نہیں تھے، یوں پورے نریٹو کو ڈسٹراشن میں لے جاتے ہوئے موجودہ دہشتگردی کی توجیح کی جاتی ہے۔ انہوں نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان میں آپ نے تشدد پسندوں کے اتنے خیرخواہ اور ہمدرد پیدا کر لیے ہیں کہ ان کے حوصلہ بڑھ رہے ہیں۔ پرائم ٹائم میں کسی بھی چینل پر بیٹھا ایک ایف اے، بی پاس شخص سکیورٹی، ٹیررازم، اکانومی تمام چیزوں کا ایکسپرٹ بن کر رائے سازی کرتا ہے اور اس دھڑلے سے کرتا ہے جیسے اس کے پاس جو علم ہے وہ الہامی سچ ہے۔ ہزاروں لاکھوں لوگ ان سے متاثر ہو رہے ہیں۔ اوپر سے ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا آگیا ہے اس میں بھی ادھوری معلومات لوگوں کی ذہن سازی کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ آپ کا جو زہریلا سیاسی ماحول بنایا گیا ہے جو وہ تو چیری آن دی کیک ہے، یہ تمام عوامل جب مل گئے ہیں، افغانستان سے نیٹو فورس کے جانے کے بعد جو ہتھیار ان کے ہاتھ میں آگئے ہیں، ان تمام چیزوں نے ان کے عمل کو نمایاں بھی کر دیا ہے اور بڑھا بھی دیا ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ آپ کی بات سے یہ لگ رہا کہ بلوچستان کا مسئلہ کچھ جرنیلوں نے اور میڈیا نے پیدا کیا ہے؟ جس پر انہوں نے کہا کہ وہ اس مسئلے کو پیدا کرنے کے ذمہ دار نہیں ہیں اس مسئلے کو کنفیوژ کرنے کے ذمہ دار ہیں ۔
Leave a Reply