
ماضی کی دھوپ، حال کا سایہ
تحریر: نواز بگٹی
“گزرا ہوا کل اچھا تھا”۔ یہ جملہ ہماری اجتماعی یادداشت کا حصہ ہے، جیسے کوئی پرانا گیت جو دل سے گونجتا ہے۔ بزرگ جوانی کی داستانوں میں کھو جاتے ہیں، جب گلیوں میں ہنسی تھی اور زندگی سادہ لگتی تھی۔ کچھ انگریزوں کے دور کو سنہری سمجھتے ہیں، جب ریلوے کی پٹریاں بچھائی گئیں اور نہریں بہتی تھیں۔ لیکن کیا ماضی واقعی خوبصورت تھا؟ جب مواصلات ایک خط تک محدود تھے، بیماریاں لاعلاج تھیں، اور انگریز برصغیر کو استعماری زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے؟ پھر کیوں ہم ماضی کو مثالی بناتے ہیں اور حال سے شکوہ کرتے ہیں؟ یہ سوال ہماری نفسیات اور تاریخ کی پرتوں کو کھولتا ہے۔
انسانی فطرت ماضی کو رنگین شیشوں سے دیکھتی ہے۔ فرڈرک بارٹلیٹ اپنی کتاب ریممبرنگ میں، جو 1932 میں شائع ہوئی، لکھتے ہیں کہ انسانی دماغ منفی یادیں دھندلاتی اور مثبت یادیں چمکاتی ہے۔ ہم بچپن کی گلیوں اور خاندانی میل ملاقاتوں کو یاد کرتے ہیں، لیکن غربت اور سماجی پابندیوں کو بھول جاتے ہیں۔ ماضی کی خوبصورتی ہمارے ذہن کا سراب ہے، جو حال سے عدم اطمینان سے گہرا ہوتا ہے۔
انگریزوں کا دور ایک پیچیدہ موڑ ہے۔ ان کی بنائی ریلوے اور نہریں برطانوی مفادات کے لیے تھیں، جبکہ برصغیر کے وسائل کا استحصال کیا گیا۔ 1857 کی جنگِ آزادی اس جبر کے خلاف بغاوت تھی۔ مرزا غالب اپنی دستنبو میں، جو 1858 میں شائع ہوئی، لکھتے ہیں کہ دہلی پاگلوں کی طرح لوٹا گیا۔ جی سی نارنگ اپنی کتاب غالب: انٹرپریٹیشنز میں، جو 1997 میں شائع ہوئی، لکھتے ہیں کہ غالب کے خطوط انگریزوں کے جبر کے خلاف خاموش مزاحمت کو ظاہر کرتے ہیں۔ 1943 کا بنگال قحط، جس نے لاکھوں جانیں لیں، انگریزوں کی معاشی پالیسیوں کی ناکامی تھا۔ مدھوسری مکھرجی اپنی کتاب چرچلز سیکریٹ وار میں، جو 2010 میں شائع ہوئی، لکھتی ہیں کہ چرچل نے بنگال سے اناج برآمد کیا، جبکہ لوگ بھوک سے مر رہے تھے۔ روملا تھاپر اپنی کتاب A History of India میں، جو 1990 میں شائع ہوئی، لکھتی ہیں کہ انگریزوں نے بنگال کی مسلن صنعت کو تباہ کیا، جس سے کاریگر بے روزگار ہوئے۔ جلیانوالہ باغ کا قتل عام (1919) انگریزی جبر کی ہولناک مثال ہے۔ بیپن چندر اپنی کتاب History of Modern India میں، جو 2009 میں شائع ہوئی، لکھتے ہیں کہ جنرل ڈائر کے حکم پر نہتے مظاہرین پر گولیاں چلائی گئیں، جس میں 379 سے 1500 افراد ہلاک ہوئے۔ بیپن چندر مزید لکھتے ہیں کہ انگریزوں کی “تقسیم کرو اور حکومت کرو” کی پالیسی نے ہندو-مسلم تقسیم بڑھائی۔ ایرک سٹوکس اپنی کتاب The Peasant and the Raj میں، جو 1978 میں شائع ہوئی، لکھتے ہیں کہ پنجاب میں کسانوں پر بھاری ٹیکس نے بغاوتوں کو جنم دیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد اپنی کتاب انڈیا ونز فریڈم میں، جو 1959 میں شائع ہوئی، لکھتے ہیں کہ انگریزوں نے لیڈروں کو جیلوں اور جلاوطنی کی سزائیں دیں۔ سرسید احمد خان نے تہذیب الاخلاق کے ذریعے، جو 1870 میں شروع ہوا، تعلیمی بیداری سے انگریزوں کے تسلط کو چیلنج کیا۔ ڈیوڈ لیلی ویلڈ اپنی کتاب Aligarh’s First Generation میں، جو 1978 میں شائع ہوئی، لکھتے ہیں کہ یہ غیر مسلح مزاحمت تھی۔
اس دور کی رومانیت کو انگریز ادیبوں نے فروغ دیا۔ رڈیارڈ کپلنگ اپنی Kim میں، جو 1901 میں شائع ہوئی، برصغیر کو پراسرار سرزمین دکھاتے ہیں، جہاں انگریز “ترقی” لے کر آئے۔ لیکن یہ تصویر جبر اور استحصال سے بھری تھی۔
موجودہ دور سے عدم اطمینان ماضی کی طرف کھینچتا ہے۔ ٹیکنالوجی نے رابطے اور علم دیا، لیکن شیری ترکل اپنی کتاب Alone Together میں، جو 2011 میں شائع ہوئی، لکھتی ہیں کہ سوشل میڈیا نے تنہائی اور اضطراب بڑھایا۔ عشرت حسین اپنی کتاب پاکستان: دی اکانومی آف این ایلیٹسٹ اسٹیٹ میں، جو 2019 میں شائع ہوئی، لکھتے ہیں کہ معاشی ناہمواری نے معاشرے کو تقسیم کیا۔ ہم ماضی کی سادگی کو ترستے ہیں، لیکن بھول جاتے ہیں کہ تب ایک بیماری خاندان تباہ کر سکتی تھی۔ آج کے مواقع—تعلیم، صحت، رابطے—ماضی میں ناقابل تصور تھے، لیکن ان تک رسائی ناہموار ہے۔
پاکستانی معاشرے میں ماضی کی رومانیت کہانیوں سے جڑی ہے۔ بزرگ یادوں سے اس تصویر کو مضبوط کرتے ہیں، لیکن جرائم اور مشکلات کو بھول جاتے ہیں۔ یہ اجتماعی سراب ہمیں ماضی کی طرف کھینچتا ہے۔ انگریزوں کا دور نظم کا لگتا ہے، لیکن اس کی قیمت آزادی تھی۔ آج کا دور پیچیدہ ہے، لیکن مواقع دیتا ہے۔ ماضی سے سیکھنا چاہیے، نہ کہ اس میں کھو جانا۔ آج کے لمحے کو جیو، مواقع پکڑو، اور کل کو بہتر بناؤ۔ ماضی سبق ہے، نہ کہ پناہ گاہ۔
Leave a Reply