
کائنات ایک حسین سمفنی ہے، جہاں ہر ذرہ، ہر لہر، اور ہر سانس ایک الہی میزان کے تابع رقص کرتی ہے۔ توانائی، جو نہ وجود میں آتی ہے نہ فنا ہوتی، اس سمفنی کی دھن ہے—ستاروں کی چمک، دریاؤں کی روانی، اور دل کی دھڑکن۔ لیکن جب یہ دھن بے ترتیب ہوتی ہے، تو زندگی کو مکمل طور پر جھنجھوڑ کر رکھتی ہے – اس دھن کو مربوط اور حسین رکھنے کو ضروری ہے کہ انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری کو سمجھا جائے جو کہ گہری بصیرت سے کا متقاضی ہے-ایک ایسا شعور جو قرآن پاک کی حکمت، سائنسی توثیق، فلسفیانہ بصیرت، اور پاکستان کی زمین پر بسنے والی زندگی کے تاروپود کو جوڑتا ہو، تاکہ اس ترتیب کے میزان کو بحال کیا جائے۔قرآن پاک کائنات کو اللہ کی نشانیوں کا آئینہ قرار دیتا ہے۔ ارشاد ہے: “اور آسمان کو اس نے بلند کیا اور میزان قائم کی، تاکہ تم اس میزان میں زیادتی نہ کرو” (قرآن پاک، سورۃ الرحمن 55:7-8)۔ توانائی اس میزان کی جھلک ہے، جو سورج کی کرنوں، ہواؤں کی سرگوشیوں، اور زندگی کی نبض میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ لیکن گلوبل وارمنگ اس میزان میں خلل ہے۔ قرآن پاک متنبہ کرتا ہے: “خشکی اور سمندر میں فساد پھیل گیا اس کی وجہ سے جو انسانوں کے ہاتھوں نے کیا” (قرآن پاک، سورۃ الروم 30:41)۔ پاکستان میں یہ فساد عیاں ہے— 2022 کےسیلاب نے جنوبی پنجاب کے راجن پور اور ڈیرہ غازی خان کے سینکڑوں دیہات کو پانی کی نذر کیا، جہاں ہزاروں گھر، فصلیں، اور لاکھوں مویشی تباہ ہوئے۔ اور حالیہ قحط سالی کی وجہ سے بلوچستان کی زرخیز زمینیں بنجر ہوئیں ، جیسے چاغی اور خاران کی فصلیں جھلس گئیں، اور ابن آدم کے لیئے پانی کی ایک بوند خواب بن گئی۔ قرآن پاک فرماتا ہے: “ہم نے انسان کو زمین میں خلیفہ بنایا” (قرآن پاک، سورۃ البقرہ 2:30)۔ یہ ہر فرد کو دعوت دیتا ہے کہ وہ زمین کی حفاظت کرے۔ اجتماعی طور پر، قرآن پاک ایک ایسی امت کی تشکیل مانگتا ہے جو وسائل کا معتدل اور متوازن استعمال کرے، اور زمین کی امانت سنبھالے۔ ارشاد ہے: “اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے” (قرآن پاک، سورۃ الرعد 13:11)۔ یہ ایمان ہے کہ ہم سب نے مل کر اس میزان کا محافظ بننا ہے اور امت کے لیئے اس میزان کا تحفظ ایک مقدس فریضہ ہے۔سائنس کائنات کے متوازن ہونے اور اس توازن کے برقرار رکھنے کے ضرورت کی توثیق کرتی ہے۔ قانون بقائے توانائی کہتا ہے کہ توانائی صرف شکل بدلتی ہے، فنا نہیں ہوتی۔ گلوبل وارمنگ زمین کے توانائی کے توازن میں خلل ہے، جہاں سورج سے آنے والی توانائی اور زمین سے خارج ہونے والی گرمی کا توازن گرین ہاؤس گیسوں کی وجہ سے بگڑتا ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح بڑھنے سے درجہ حرارت بڑھا، جو پاکستان میں شدید سیلابوں اور خشک سالی کا باعث بن رہا ہے۔ سیلاب نے پنجاب، سندھ، اور خیبر پختونخوا کے نشیبی علاقوں کو تباہ کیا، جہاں ہزاروں گھر زمین بوس ہوئے، سینکڑوں افراد ہلاک، اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ گلیشیئرز کا پگھلنا، سمندری سطح کا بڑھنا، اور طوفانوں کی شدت اس خلل کی گواہی دیتے ہیں۔ اگر اسے نہ روکا گیا، تو گھر سیلابوں کی نذر ہوں گے، فصلیں جھلس جائیں گی، اور صحت خطرے میں پڑے گی—ہیٹ ویو سے اموات کا اضافہ اس کی ایک جھلک ہے۔ لیکن سائنس امید بھی دیتی ہے: قابل تجدید توانائی مستقبل میں ماحول دشمن گیسوں کے اخراج کو نمایاں طور پر کم کر سکتی ہے۔فلسفہ اسے گہری بصیرت سے سمجھاتا ہے۔ فطرت ایک کامل ترتیب ہے، اور توازن اس کی علامت ہے۔ توانائی اس ترتیب کی روح ہے، جو کائنات کی ہر لہر کو حرکت دیتی ہے۔ گلوبل وارمنگ اس متوازن ترتیب میں دراڑ ہے، جو یہ سوال اٹھاتی ہے کہ کیا فطرت کے ساتھ ہم آہنگی کے بغیر زندگی ممکن ہے؟ بلوچستان کی بنجر زمینیں اور پنجاب کے زیر آب دیہات اس کینوس کی دو متضاد تصاویر ہیں، جو ہماری بے جا مداخلت کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ توانائی، جو ہر سانس میں بہتی ہے، یاد دلاتی ہے کہ اس کینوس کا حصہ ہونے کے ناطے اسے نقصان پہنچانا خود کو نقصان دینا ہے۔روزمرہ زندگی اس میزان کا محور ہے۔ ہر صبح جب بجلی استعمال کی جاتی ہے، یا پلاسٹک کی بوتل پھینکی جاتی ہے، یہ میزان متاثر ہوتی ہے۔ ایک دہائی قبل سیلاب نے پنجاب اور سندھ میں لاکھوں افراد کو بے گھر کیا، جبکہ اربوں روپے کی فصلیں تباہ ہوئیں۔ حالیہ برسوں میں سیلاب نے گھروں کو نقصان پہنچایا اور جانیں لیں۔ یہ سب اس حسین سمفنی کے دھنوں کی بے ترتیب کیئے جانے کی گواہی دیتے ہیں۔اگر ابھی سے اقدامات نہ اٹھائے گئے، تو نقصانات تباہ کن ہوں گے۔ درجہ حرارت بڑھنے سے پاکستان کے زرعی علاقے خشک سالی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ سمندری سطح کے بڑھنے سے کراچی اور بدین جیسے ساحلی شہر ڈوب سکتے ہیں، جبکہ ہیٹ ویو سے اموات بڑھ سکتی ہیں۔ بلوچستان میں قحط سالی خوراک کی شدید قلت لائے گی، جبکہ پنجاب میں سیلاب گھروں اور معاش کو نگل لیں گے۔ یہ نقصانات گھر، فصلوں، اور بچوں کے مستقبل کو چھین سکتے ہیں۔اس تباہ کاری سے بچنے کے لیئے ایک اس قدر لمبے سفر کی ضرورت ہے جس قدر لمبا سفر طے کر کے ہم نے یہ تباہی یقینی بنا لی ۔ یہ نیا سفر ایک عمیق بصیرت سے آغاز پاتا ہے—قرآن پاک کی آیات پر غور، توانائی کے توازن پر تحقیق، اور فطرت کے ساتھ رشتے پر بصیرت۔ توانائی الہی قدرت کی جھلک ہے، جو سمندر کی لہروں سے لے کر دل کی دھڑکن تک بہتی ہے۔ لیکن اس کا غلط استعمال—کاربن گیسوں کا بے تحاشا اخراج—اس جھلک کو داغدار کرتا ہے۔ گلوبل وارمنگ اس کا نتیجہ ہے، جو شہروں کو ڈبوتا ہے، فصلوں کو تباہ کرتا ہے، اور مستقبل کو دھندلا دیتا ہے۔ فطرت کے قوانین سزا اور جزا کو عیاں کرتے ہیں۔ اجتماعی اعمال—صنعتوں، گاڑیوں، اور جنگلات کی
Leave a Reply