
پانامہ نہر دنیا کے عظیم ترین انجینئرنگ منصوبوں میں سے ایک ہے۔ یہ بحر اوقیانوس (Atlantic Ocean) اور بحر الکاہل (Pacific Ocean) کو آپس میں جوڑتی ہے، جس سے جہازوں کو جنوبی امریکہ کے طویل اور خطرناک راستے سے گزرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔
پانامہ نہر کو بنانے کی ابتدائی کوششیں (فرانسیسیوں نے 1881–1894میں کیں ۔
فرانسیسی انجینئر فردینینڈ ڈی لیسپس (Ferdinand de Lesseps)، جنہوں نے سویز نہر تعمیر کی تھی، نے اس منصوبے کی قیادت کی۔
تاہم، ملیریا اور یرقان جیسی بیماریوں اور شدید انجینئرنگ مسائل کی وجہ سے یہ منصوبہ ناکام ہو گیا۔ 1904 میں امریکہ نے یہ منصوبہ سنبھالا اور کولمبیا سے آزادی حاصل کرنے میں پانامہ کی مدد کی۔
صدر تھیوڈور روزویلٹ (Theodore Roosevelt) کے دور میں صفائی کے بہتر اقدامات کیے گئے (جس میں ڈاکٹر ویلیم گورگاس کا اہم کردار تھا) اور جدید تعمیراتی تکنیک استعمال کی گئیں۔
نہر کو 15 اگست 1914 کو باضابطہ طور پر کھول دیا گیا۔
امریکی کنٹرول اور پانامہ کو منتقلی
1914 سے 1999 تک نہر پر امریکی کنٹرول رہا۔
1977 میں ٹوریجوس-کارٹر معاہدے (Torrijos-Carter Treaties) کے تحت یہ طے پایا کہ امریکہ نہر کا کنٹرول پانامہ کو سونپ دے گا۔
31 دسمبر 1999 کو نہر کا مکمل انتظام پانامہ کے سپرد کر دیا گیا۔
آج کے دور میں پانامہ نہر عالمی تجارت کے لیے انتہائی اہم ہے، لیکن اسے کئی جدید چیلنجز کا سامنا ہے:
- توسیع اور جدیدیت
2007 سے 2016 کے درمیان پانامہ نہر کی توسیعی منصوبہ بندی کی گئی، جس میں نئی اور بڑی گزرگاہیں (locks) بنائی گئیں۔
اس کی مدد سے Neo-Panamax جیسے بڑے جہاز گزر سکتے ہیں، لیکن اس سے زیادہ پانی کی ضرورت بھی پیدا ہو گئی ہے. - پانی کی قلت
نہر کے دروازے کھولنے کے لیے تازہ پانی گتون جھیل (Lake Gatun) سے آتا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی (climate change) اور خشک سالی (droughts) کی وجہ سے پانی کی سطح کم ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے جہازوں کے وزن اور گزرنے کی تعداد پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ - دیگر تجارتی راستوں سے مقابلہ
سویز نہر (Suez Canal) اور آرکٹک روٹ (Arctic Route) پانامہ نہر کے متبادل سمجھے جا رہے ہیں۔
نکاراگوا نہر (Nicaragua Canal) کا منصوبہ بھی مستقبل میں اس کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ - جغرافیائی اور اقتصادی چیلنجز
امریکہ اور چین دونوں کی تجارت کے لیے نہر کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔
پانامہ کو نہر سے سالانہ تقریباً 2.5 ارب ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے، جو اس کی معیشت کے لیے نہایت ضروری ہے۔
پانامہ نہر آج بھی عالمی تجارت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، لیکن پانی کی قلت، بدلتے موسم، اور دیگر تجارتی راستوں سے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ پانامہ حکومت اس نہر کو طویل مدتی طور پر فعال رکھنے کے لیے بنیادی ڈھانچے اور پانی کے انتظام میں مسلسل سرمایہ کاری کر رہی ہے۔

Leave a Reply